شاید معروف شاعر عبیداللہ علیم کے ساتھ بھی یہی ماجرا ہوا ہو جو غالب نے کہا تھا کہ ”آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں”، جب آپ نے یہ غزل لکھی
میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں
میں یہ کس کے نام لکھّوں جو الم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں
جب گروہوں کو اجتماعی طور پر نشانہ بنا کر قتل کرنا وطیرہ بنا لیا جائے تو ضروری نہیں کہ جنازہ اپنے کسی خونی رشتہ دار کا ہو تو ماتم ہو۔ حساسیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ ہر کفن اپنے باپ، بھائی، بہن یا بچوں کا لگتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ماجرا ٹھٹھرتی سردی میں بیٹھے کوئٹہ کے شیعہ ہزارہ قوم کے باسیوں پر گزر رہا ہوگا۔ وہ جن کا کوئی قریبی رشتہ دار، کسی کا باپ کسی کی ماں، بھائی بہن، بیوی بچے پچھلے سال شہید ہوئے اور وہ سردی میں تین دن دھرنا دیے بیٹھے رہے آج پھر ان پر قیامت دوبارہ سے وارد ہوگئی ہے۔ آج پھر دلوں پر چیرا لگ گیا ہے۔ کفن میں لپٹے وجود کسی اور کے نہیں، اپنے ہی بھائی، اپنے ہی والدین، اپنے ہی بچے ہیں، مرنے والے کوئی اور نہیں بس “اپنے” ہیں۔
آج ایک اور قیامت ہے، ایک اور کربلا، نئے یزید، نئے شمر…
سال گزر گیا، حکومتیں تبدیل ہوگئیں۔ وہی گھسے پٹے وعدے نئے پیرائے میں دہرائے گئے۔ نئی امیدیں باندھیں گئیں۔ اور پھر نئے سرے سے وعدے توڑے گئے، امیدیں خاک ہوئیں۔ مگر کوئٹہ کی ایک بستی ہے کہ ماتم کا موسم وہاں ٹہر ہی گیا ہے۔ آج بھی شیعہ ہزارہ کی لاشیں گر رہی ہیں جیسے پہلے گر رہیں تھیں۔ کچھ بھی بدلنے کے لئے ریاست اور قومی سلامتی پر مامور اداروں کی عظیم تر مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم 2015 یا اس کے بعد کے کسی سال میں رہ رہے ہیں۔ ہماری ساری توجہ بعد از امریکا افغانستان پر لگ گی ہے۔ ”آج” ہم نے برباد کرلیا ہے۔ ریاست افغانستان میں اور بلوچستان میں اپنے ”مددگار” عسکری گروہوں کو قطع نظر ان کی فرقہ وارانہ کاروائیوں کے گلے سے لگا کر بیٹھی ہے۔ کیا ریاست کی عظیم تر سٹریٹجک مقاصد کی بَلی شیعہ ہزارہ قوم نے دینی ہے؟؟؟ کیا ہم نے فرض کر لیا ہے کہ چونکہ سلامتی پر مامور اداروں کا انحصار بعض مذہبی انتہاپسند عسکری گروہوں پر ہے اس لئے اس کے بدلے میں یہ قتل عام ناگزیر ہے؟؟؟ اس سے صرفِ نظر کرنا پڑے گا۔ کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟ خدارا کچھ سوچئے۔ ہم کب تک ریاست کو فرنچائزڈ ریاستیں بنا بنا کر چلاتے رہیں گے جو اپنا آئین، اپنا قانون، اپنا انصاف اپنے زیرِ اثر علاقوں میں نافذ کرتی رہیں گیں اور ہم خاموش رہیں گے۔ اور بدلے میں ان معصوموں کو ملحقہ نقصان کی نذر کرتے رہیں گے۔
اگر ریاستِ پاکستان نے ان معصوموں کی جان، مال عزت کا تحفظ کرنے کا فرض نہیں اٹھانا تو پھر بہتر ہے کہ ان کو قبرستان الاٹ کر دے، تا کہ مرنے والوں کے عزیزوں کو یہ خوف نہ ہو کہ کل کو ان کے مردوں کو قبروں سے نکال کر مذہبی فریضہ نہ پورا کیا جائے۔ چلیۓ زندوں کے حقوق نہیں تو مردوں کے ہی پورے کر دیجیے۔ آخر آرام دہ موت کی گارنٹی تو ریاست دے ہی سکتی ہے!!!
جب تک ہماری priorities خاص گروہوں پر جھکاؤ اور خاص سے صرفِ نظر برتنا رہیں گیں یاد رکھیے ریاست کو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوگا کہ مرنے والا ”اپنا” ہے۔ مرنے والے پھر الف، ب، ج کی اقسام میں تقسیم ہوں گے۔ اگر یہ بدلنا ہے تو پھر یہ سب کی ذمہ داری ہے۔ اجتماعی شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ الف کی موت پر افسوس، ب کی موت پر خاموشی اور ج کی موت پر دھرنے اور ناٹو سپلائی بند کرنے سے کام نہیں چلے گا۔
کسی دانا نے کہا تھا کہ آخر میں اپنے دشمنوں کے الفاظ نہیں، بلکہ اپنے دوستوں کی خاموشی یاد رہتی ہے۔ پس عجیب لوگ ہیں ہم، ملک میں نئے کربلا بن گئے ہیں اور لوگ خاموش ہیں۔ یاد رکھیے یزید بننے کے لئے ضروری نہیں کہ فوجیں بھیج کر لشکر کشی کی جائے۔ بعض دفعہ خاموش رہ کر بھی یہ کردار بخوبی نبھایا جا سکتا ہے۔
آج ایک اور قیامت ہے، ایک اور کربلا، نئے یزید، نئے شمر…
سال گزر گیا، حکومتیں تبدیل ہوگئیں۔ وہی گھسے پٹے وعدے نئے پیرائے میں دہرائے گئے۔ نئی امیدیں باندھیں گئیں۔ اور پھر نئے سرے سے وعدے توڑے گئے، امیدیں خاک ہوئیں۔ مگر کوئٹہ کی ایک بستی ہے کہ ماتم کا موسم وہاں ٹہر ہی گیا ہے۔ آج بھی شیعہ ہزارہ کی لاشیں گر رہی ہیں جیسے پہلے گر رہیں تھیں۔ کچھ بھی بدلنے کے لئے ریاست اور قومی سلامتی پر مامور اداروں کی عظیم تر مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم 2015 یا اس کے بعد کے کسی سال میں رہ رہے ہیں۔ ہماری ساری توجہ بعد از امریکا افغانستان پر لگ گی ہے۔ ”آج” ہم نے برباد کرلیا ہے۔ ریاست افغانستان میں اور بلوچستان میں اپنے ”مددگار” عسکری گروہوں کو قطع نظر ان کی فرقہ وارانہ کاروائیوں کے گلے سے لگا کر بیٹھی ہے۔ کیا ریاست کی عظیم تر سٹریٹجک مقاصد کی بَلی شیعہ ہزارہ قوم نے دینی ہے؟؟؟ کیا ہم نے فرض کر لیا ہے کہ چونکہ سلامتی پر مامور اداروں کا انحصار بعض مذہبی انتہاپسند عسکری گروہوں پر ہے اس لئے اس کے بدلے میں یہ قتل عام ناگزیر ہے؟؟؟ اس سے صرفِ نظر کرنا پڑے گا۔ کیا کچھ نہیں ہوسکتا؟ خدارا کچھ سوچئے۔ ہم کب تک ریاست کو فرنچائزڈ ریاستیں بنا بنا کر چلاتے رہیں گے جو اپنا آئین، اپنا قانون، اپنا انصاف اپنے زیرِ اثر علاقوں میں نافذ کرتی رہیں گیں اور ہم خاموش رہیں گے۔ اور بدلے میں ان معصوموں کو ملحقہ نقصان کی نذر کرتے رہیں گے۔
اگر ریاستِ پاکستان نے ان معصوموں کی جان، مال عزت کا تحفظ کرنے کا فرض نہیں اٹھانا تو پھر بہتر ہے کہ ان کو قبرستان الاٹ کر دے، تا کہ مرنے والوں کے عزیزوں کو یہ خوف نہ ہو کہ کل کو ان کے مردوں کو قبروں سے نکال کر مذہبی فریضہ نہ پورا کیا جائے۔ چلیۓ زندوں کے حقوق نہیں تو مردوں کے ہی پورے کر دیجیے۔ آخر آرام دہ موت کی گارنٹی تو ریاست دے ہی سکتی ہے!!!
جب تک ہماری priorities خاص گروہوں پر جھکاؤ اور خاص سے صرفِ نظر برتنا رہیں گیں یاد رکھیے ریاست کو کبھی ایسا محسوس نہیں ہوگا کہ مرنے والا ”اپنا” ہے۔ مرنے والے پھر الف، ب، ج کی اقسام میں تقسیم ہوں گے۔ اگر یہ بدلنا ہے تو پھر یہ سب کی ذمہ داری ہے۔ اجتماعی شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ الف کی موت پر افسوس، ب کی موت پر خاموشی اور ج کی موت پر دھرنے اور ناٹو سپلائی بند کرنے سے کام نہیں چلے گا۔
کسی دانا نے کہا تھا کہ آخر میں اپنے دشمنوں کے الفاظ نہیں، بلکہ اپنے دوستوں کی خاموشی یاد رہتی ہے۔ پس عجیب لوگ ہیں ہم، ملک میں نئے کربلا بن گئے ہیں اور لوگ خاموش ہیں۔ یاد رکھیے یزید بننے کے لئے ضروری نہیں کہ فوجیں بھیج کر لشکر کشی کی جائے۔ بعض دفعہ خاموش رہ کر بھی یہ کردار بخوبی نبھایا جا سکتا ہے۔